Thursday 3 April 2014

Happy Birthday Sir


Sunday 2 December 2012

امام صدیقی کو بگ باس سے باہر کرنے کے لیے 72گھنٹے کا الٹی میٹم




عوامی وکاس پارٹی کا 8 دسمبر کو لوناولہ میں  احتجاج اور بھوک ہڑتال کی دھمکی
عوامی وکاس پارٹی کے ممبئی کے صدر دفتر میں 30 نومبر 2012 ء کو ہوئي میٹنگ میں طے شدہ پروگرام کے مطابق عوامی وکاس  پارٹی کے جنرل سیکریٹری سلیم الوارے کی قیادت میں بیس رکنی ٹیم نے بگ باس ریئلٹی شو سے امام صدیقی کو باہر کرنے کے لیے اسٹریٹجی طے کرنے کے لیے  لوناؤلہ کا دورہ کیا ۔اس ٹیم  نے لوناؤلہ سیٹی پولیس اسٹیشن کے افسران کو  تحریری    شکایت کی  کہ بگ باس کے ایک شریک امام صدیقی نے  20 نومبر کے  ایپی سوڈ میں ننگے پن  کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اپنے سارے کپڑے اتار    دیۓ اس طرح کی حرکتیں سیول سوسائٹی کبھی  برداشت نہیں کر سکتی ۔ اور تو اور اسی شخص کو  اگلے ایپی سوڈ میں نماز پڑھتے ہوۓ  دکھایا گیا ہے۔ امام صدیقی کی اس حرکت سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سارے ہندوستانی  خفا ہیں ۔ عوام وکاس پارٹی اس کی پر  زور مذمّت کرتی ہے اور آپ کے توسط  سے  ا پنا اعتراض درج کرتے ہوۓ  انڈامل پروڈکشن ہاؤس سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اگلے  72 گھنٹوں میں امام صدیقی کو شو سے باہر کردے بصورت دیگر  عوامی وکاس پارٹی لوناؤلہ میں بگ باس سیٹ کے سامنے اے بی سی کمپاؤنڈ کے نزد 8 دسمبر 2012ء کو صبح 11 بجے سے احتجاج کرے گی اور  پارٹی لیڈران بھوک ہڑتال کریں گے ۔اس بیس رکنی ٹیم میں اعجاز مقادم ،سلمہ خان ،فاطمہ  جعفر خان ،نور بانو،منگلہ پیٹر،منور سلطانہ ،فیاض کیپٹن و ديگر اہم پارٹی ممبران شریک تھے ۔

Saturday 1 December 2012

مسلم اور دلت اتحاد کے ساتھ ہی عوامی وکاس پارٹی کا قیام










 محروم طبقات کو انکے حقوق دلانے کا عزم یکم مئی مزدوروں کا بین ا لاقوامی دن اور یوم مہاراشٹر کے موقع پر مہراشٹر کے مسلمانوں اور دلتوں نے ایک نئے عزم کے ساتھ ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈالی ئجس کا اعلان آج یکم مئی کو ممبئی کے کنگ سرکل میں واقع شان مکھانند ہال میں سبک دوش اسسٹنٹ پولس کمشنر ممئی شمشیر خان پٹھان (صدر ) اور ببن کامبلے (نائب صدر) نے کیا ۔اس تاریخی اجلاس کا افتتاح بچوں کے ذریعہ بنے ماڈل سے ہوا جس میں کوئی شیوا جی تھا تو کوئی مولانا آزاد ۔ایم اے خالد جو کہ ایک آر ٹی آئی ایکٹیوسٹ ہیں نے اپنے افتتاحی کطاب میں کہا کہ مسلمانوں دلتوں اور دیگر محروم طبقات کے لئے یہ ایک متحدہ پلیٹ فارم ہے۔عام طور پر سیاسی پارٹیاں دو وجوہات کی بنا پر بنا کرتی ہیں ایک تو اس پارٹی بغاوت کرکے ایک الگ پارٹی بناتے ہیں دوسرے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے ۔انہوں کہا کہ جب ہمارے مقدر کا فیصلہ پارلیمنٹ ،اسمبلی اور کارپوریشن میں ہوا کرتا ہے تو کیوں نہیں ہم اپنے نمائندے وہاں بھیجیں جو ہمارے حقوق کی حفاظت کریں۔انہوں کیرل کی مثال دی کہ وہاں مسلمان حکومت میں شراکت دار ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کے سات میڈیکل کالج ہیں۔کیرل کے مسلمانوں کی حیثیت پورے ملک کے مسلمانوں اور محروم طبقات کیلئے رہنما کی سی ہے۔ڈی ساونت نے کہا کہ سنجیدگی سے پورے عزم و حوصلے کے ساتھ قدم آگے بڑھائیں تو یقیناًکامیابی ملے گی۔امتیاز پیر زادہ (پونے) نے اپنے مسائل خود کے زریعہ بنائے گئے سیاسی پلیٹ فارم سے ہی ممکن ہے ۔ہم نے کانگریس کو ووٹ دیا لیکن کانگریس نے ہمیں TADA,POTA,MCOCA جیسے ظالمانہ قانون دیئے انہوں نے ہمیں بھیونڈی ،ممبئی سمیت انگنت فساد دئے ۔ہم نے انہیں ووٹ دیا انہوں نے ہمیں دہشت گرد اور غداری کا لیبل دیا۔ہماری یہ بری حالت کس نے بنائی اسی کانگریس اور این سی پی کی حکومت نے ،ہم اپنی کوئی مانگ لیکر جاتے ہیں تو کلکٹر ہمارے سامنے تو یہ کہتا ہے کہ ہم غور کریں گے ،لیکن ہمارے وہاں سے ہٹتے ہی وہ ہمارے مطالبات والی فہرست یا درخواست کچڑے میں پھینک دیتا ہے ۔اس لئے ہم بیداری کا ثبوت دیں عوامی وکاس پارٹی کا ساتھ دیں جو ہمارے حقوق کے لئے لڑیں گے۔ مبارک کاپڑی نے کہا کہ جو قوم قوالی میں پانچ پانچ گھنٹے دیتی تھی آج وہ تعلیمی لیکچر میں اس سے زیادہ وقت دے رہی ہے جو قوم کے اندر تبدیلی کا اشارہ ہے۔جس دن سے عوامی وکاس پارٹی کا اعلان ہوا ہے مجھے جو ای میل اور sms ملے ہیں اس میں سے نوے فیصد لوگوں نے میری حمایت کی ہے باقی جو دس فیصد مخالف ہیں انہوں نے بھی اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ کہیں سیاست میں پھنس کر تعلیمی تحریک سے میں پیچھے نہ ہٹ جاؤں ،میں وعدہ لرتا ہوں کہ میں اسی طرح اپنی تعلیمی تحریک میں جٹا رہوں گا ۔اس پارٹی میں ہوں لیکن میں کبھی الیکشن نہیں لڑوں گا ۔انہوں نے کہا کہ پچھلے کئی دہائیوں سے میں تعلیمی تحریک سے جڑا ہوا ہوں مجھے اندازہ ہے کہ ہمارے بچوں میں ذہانت کی کمی نہیں ہے لیکن چونکہ مسلمان مالی طور پر پسماندہ ہے اس لئے وہ انجینیئر بننے کے بجائے میکنک بن جاتا ہے ۔مسلمانوں کو اسکولر شپ دینے میں بھی ٹال مٹول اور آنا کانی سے کام لیا جاتا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دو لاکھ سے زائد درخواست مولقانا آزاد اقلیتی مالیاتی کارپوریشن میں پڑا ہوا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ماہر تعلیم مبارک کاپڑی نے کہا کہ ہمارے دکھ ایک ہیں ہمارے دشمن بھی ایک ہیں ۔ہماری ترقی کی راہوں میں سیاست داں اور برہمنی بیورو کریسی روڑا ہے۔ سرفراز آرزو ایڈیٹر روزنامہ ہندوستان نے کہا کہ شیو سینا بی جے پی حکومت میں وزیر اعلیٰ منوہر جوشی نے اردو اکیڈمی کا بجٹ تیس لاکھ کیا اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اس کو ایک کروڑ تک کر دیں گے لیکن اس وقت سے بجائے بجٹ میں اضافہ ہونے کہ ہر سال بجٹ میں کمی ہی کی جاتی رہی ہے۔مسلم یونیورسٹی کی شاخ کے لئے جس میں ریاستی حکومت کو ایک پائی بھی خرچ نہیں کرنا ہے لیکن اقلیتوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والی حکومت اس کے لئے زمین بھی مہیا نہیں کروارہی ہے۔جبکہ کیرلا بہار اور مغربی بنگال کی حکومت نے زمین مہیا کرادی ۔مہاراشٹر میں مسلمانوں کا ایک بھی میڈیکل کالج نہیں ہے۔سیاست کی بساط پر جو طئے کر دیا گیا ہے اس سے ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاپارہے ہیں ۔نئی سیاسی پارٹی کیوں اس پر انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایسی کوشش ہوئی لیکن وہ بار آور نہیں ہو سکی ۔یہ دوسری کوشش ہے ہم پچھلی ناکامی سے سبق لیکر اس کو ناکامی سے بچانے کی کوشش کریں گے۔ جاوید پاشا نے کہا کہ جب تک غلاموں کو غلامی کا احساس نہیں کریا جائے تب تک بیداری نہیں آتی۔ڈاکٹر ایمبیڈکر نے کہا تھا کہ جو سماج سیاست میں شریک نہیں ہوتا وہی غلط سیاست کا سب سے پہلا شکار ہوتا ہے۔ہم نے آزادی کے بعد سے جسے ووٹنگ کرتے رہے اسی نے ہمارا کردار بدنماء بنانے کی کوشش کی آج حالت یہ ہے کہ سرکاری نوکریوں میں تو ہمارا تناسب دو فیصد ہے لیکن جیلوں میں ہمارا تناسب پینتیس فیصد سے زیادہ ہے۔اگر ہم نے ہوشمندی سے کام لیا ہوتا تو نقشہ اس کا الٹا ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ یہاں جوش خروش دکھانے سے کچھ نہیں ہوگا یہ بات آپ کے دل میں بیٹھنی چاہیئے کہ ہماری پسماندگی کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا علاج کیا ہے ۔ہم آپ کو اس پارٹی کے ذریعہ ووٹ کی لاٹھی دینے آئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی پہلی پارٹی ہے جو یہ اعلان کرتی ہے کہ کسی بھی مجرمانہ بیک گراؤنڈ والے کو نہ تو اس پارٹی میں جگہ ملیگی اور نہ ہی ایسے شخص کو ٹکٹ دیا جائے گا ۔یہ ایک دو دن کی ایک دو سال کی لڑائی نہٰں ہے ۔یہ لمبی لڑائی ہے اس میں قربانی دیجئے گا جب ہی کامیابی ملیگی قربانی اور کامیابی ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ۔ہم پوری مثبت انداز فکر کے ساتھ اس میں آئے ہیں ۔ارشاد خطیب نے کہا کہ وقف کی زمینوں پر جو قبضہ ہے ہم انہیں واپس لیں گے یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہمارے پاس حکومت کی طاقت ہو۔ ببن کامبلے جو کہ اس پارٹی کے نائب صدر ہیں نے کہا کہ اس حکومے اور انتظامیہ نے مسلمانوں کی ایس صورت بنادی ہے کہ مسلمان کی پہچان دہشت گرد کی سی بن گئی ہے ،جو لوگ یہ سمجھتے ہیں انسے میرا سوال ہے کہ کیا سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر مسلمان ہے؟مسلمان بھی اس ملک میں اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا دوسری قومیں اور یہ ضمانت ہمیں یہاں کے دستور نے دی ہے۔انہوں نے پرجوش انداز میں سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج سے اگر کسی دلت پر کوئی پریشانی آتی ہے تو مسلمان اس کی مدد کریں اور اگر کسی مسلمان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو دلت اپنے مسلمان بھائی کی مدد کریں ۔اپنی طاقت کو سمجھئے آپ کی تعداد ۳۹ فیصد ہے اگر آپ بیدار ہوگئے تو حکومت آپ کی ہی ہوگی اس سے کم ووٹ حاصل کرنے والے آپ پر حکومت کرتے ہیں ۔پہلے حکومت پر قبضی کیجئے اور پھر اپنے لئے ریزرویشن مانگئے اس وقت آپ کو بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔صرف مسلمانوں نے اتر پردیس میں مایا کا ساتھ چحوڑ دیا تو مایا کی حکومت چلی گئی تو کیا یہا مہاراشٹر میں دلت مسلم اور ایمبیڈکر سماج ملکر حکومت پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ شمشیر خان پٹھان نے کہا کہ میڈیا پولس اور سیاست دانوں کی ملی بھگت سے مسلمانوں کی تصویر بگاڑی گئی ہے ۔ہر ہندو تیو ہاروں کے موقع پر آئی بی کی طرف سے یہ الرٹ جاری کیا جاتا ہے کہ دو یا چار یا چھ دہشت گرد بھارت میں گھس آئے ہیں ۔انکے اسکیچ بھی جاری کئے جاتے ہیں ۔جو کہ گنپتی یا کسی بھی پوجا پنڈالوں کے باہر بھی لگائے جاتے ہیں عام ہندو داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے ہوئے اسے دیکھتا ہے اور اس کے دل میں مسلمانوں سے بھر جاتی ہے ۔لیکن یہ دہشت گرد کبھی پکڑے نہیں جاتے ایسا صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو گہرا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔حکومت عوام کو شراب اور جوئے میں پھنسا کر بنیادی ضروریات کی طرف سے انکے ذہن کو موڑ رہی ہے۔میں عزم مصمم لیکر آیا ہوں جو باتیں کہہ رہا ہوں صدق دل سے کہہ رہا ہوں یہ محض گفتار نہیں ہے ۔میں کرکے دکھاؤں گا ۔اگر ہمیں موقع ملے گا تو ہم شراب اور لاٹری پر مکمل پابندی لگا دینگے۔کیوں کہ شراب اور لاٹری کے ذریعہ غریب اور جاہل عوام کا پیسہ سفید کالر غنڈوں کے جیب میں چلا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس ریکارڈ ہے کے سیاست دانوں نے مختلف بہانوں سے ہزاروں ایکڑ زمینیں ہتھیا رکھی ہیں ۔لیکن ہم ہمارا اسمٰعیل یوسف کالج کی ۵۔۶۲ ایکڑ زمیں مانگتے ہیں لیکن حکومت ہمیں ہماری زمین نہیں لوٹاتی ۔آج کے بعد میری زندگی قوم کے لئے وقف ہے اب چاہے ان راہوں میں کتنی ہی مشکلات سے گزرنا پڑے خواہ جان ہی کیوں نہ گنوانی پڑے۔ اس سلسلے میں ہم نے شرکاء میں سے بھی کچھ لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش کی ۔محمد مسرت جو کہ رے روڈ سے آئے تھے اور جن کا تعلق اتر پردیس سے ہے نے اپنے خیالات کچھ اس طرح بیان کئے’’یہ عوامی وکاس پارٹی اس لئے ہے کہ ہم اپنے قدموں پرکھڑے ہوسکیں ،آخر کب تک ہم دوسروں پر انحصار کریں ۔مسلم عوام کی بھی رائے یہی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی سیاسی پارٹی ہو جو ہمارے حقوق کی لڑائی لڑے ۔کانگریس نے آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔تریمبک جادھو جو کہ کوپر کھیڑا نئی ممبئی سے اس افتتاحی اجلاس میں شریک ہوئے تھے کا خیال ہے کہ دلت مسلم اتحاد وقت کی ضرورت ہے اگر ہم دلت اور مسلم متحد ہوجائیں ظلم و استحصال کا خاتمہ ہوجائے گا پچھلے پینسٹھ سالوں سے مسلمان اور دلت جس ظلم کو سہتے آرہے ہیں اب اس کے اختتام کا وقت آگیا ہے۔کرلا سے آئے ہوئے خان صاحب نے کہا کہ یہ ایک اچھی کوشش ہے ہماری خواہش ہے کہ یہ کوشش کامیابی سے ہمکنار ہو اور دشمنوں کی نظر بد سے یہ محفوظ رہے۔جبکہ بھیوانڈی سے آئے ہوئے ڈاکٹر سعید انصاری کی رائے مختلف ہے ان کا کہنا ہے کہ کسی نئی یا مسلم سیاسی پارٹی کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔پہلے سے ہی بہت سی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں ۔اتنی ساری پارٹیوں کی موجودگی میں اس پارٹی کا اقتدار میں آنا مشکل ہے۔مسلمانوں کی بھی کئی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں ۔مسلمان اور دلت پہلے سے ہی کئی خانوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔یہ لوگ کس سے اتحاد کریں گے یہ ابھی سمجھ میں نہیں آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کانگریس مسلمانوں کے لئے کم نقصاندہ ہے ۔اس سوال پر کہ آزادی کے بعد سے کانگریس ہی بر سر اقتدار رہی ہے اور مسلمانوں کی حالت کسی سے مخفی نہیں ہے ،پھر بھی آپ یہ کہتے ہیں کہ کانگریس ہی بہتر ہے ۔اس پر انہوں نے کہا کہ مسلمان ہی اس کے لئے ذمہ دار ہیں ۔ 

کامیابی مبارک ہو



کامیابی مبارک ہو
 
عوامی وکاس پارٹی کے صدر شمشیر خان پٹھان صاحب ریاست کے اقلیتوں پر ہورہی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ۔ ریا ست مہاراشٹر کے اقلیتی چئرمین کی تقرری کے بعد عوامی وکاس پارٹی نے ریاست کی اردو اکادمی ، حج کمیٹی اور وقف بورڈ کے چیئرمین ودیگر عہدے داران کی تقرری کی فوری مانگ کی ہے ۔شمشیر پٹھان نے اقلیتی چيئرمین کی تقرری کو عوامی وکاس کے زبردست احتجاج اور اسے عوامی حمایت کا نتیجہ ہے ۔ اقلیتوں کی فلاح و بہبودی کے لیے ان کے مسائل کے حل کے لیے عوامی وکاس پارٹی کے قیام کا عمل میں آنا وقت کی خاص ضرورت ہے ۔اور شمشیر پٹھان صاحب اور ان کے ہم عصروں کو ہم دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں ۔ اور اللہ ربالعزت سے دعا کرتے ہیں کہ وہ انھیں اپنے نیک مشن میں کامیابی عطا کریں ۔

Friday 30 November 2012

باطل کے منصوبے


امریکی فلم  '' انوسینس  مسلمس'' میں  اسلام ، رسول اللہ  اور  مسلمانوں  کے خلاف  گستاخی  کی وجہ سے  دنیا  بھر میں زبردست احتجاج کا سلسلہ  جاری  ہے  اور مسلم دنیا میں  غم و غصہ  کا اظہار کیا جارہا ہے  ہندوستان میں بھی علما ء اور سیاستدانوں نے  مسلمانوں  سے پر امن رہنے کی درخواست کر رہی ہے ۔ اس موقع پر سیاسی  جماعت عوامی وکاس  پارٹی کے  روح رواں  اور سابق اے پی  شمشیر خان پٹھان سر نے بھی اشتعال  انگیز  فلم  پر شدید  ردّ عمل  کا اظہار کیا ہے ۔لیکن  مسلمانوں  سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ  وہ سڑکوں  پر  احتجاج سے  احتراز کریں ۔اور غصہ سے مشتمل  ہونے کی بجاۓ  احتجاج پر امن طریقے   اپنائیں۔  ہمیں باطل کے  منصوبوں  سے ہشیار رہنا بھی ضروری ہے ۔انھوں نے کہا کہ باطل طاقتیں  ہمیشہ  سے مسلم  نوجوانوں  کو تشدّد  کے لیے  اکساتی  رہی ہے ۔اس لیے  ان کی  سازش  کو جاننے  کے بعد مسلمان  ہرگز      ہرگز  مشتعل  نہ ہو ۔کیونک گزشتہ ایک دہائی سے  مغرب والوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ  آزادی  اظہار راۓ  کے نام  پر یو ٹیوب اور انٹرنیٹ پر اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف  اہانت  آمیز مواد اور خاکے  اپلوڈکرکے  فتنہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ وہ اس بات سے اچھی طرح  واقف ہیں کہ  مسلمان رسول ، قرآن اور خلفاۓ راشدین کی توہین  برداشت  نہیں کر سکتے ہیں ۔اس لیے وقفہ وقفہ سے وہ حرکتیں  کرتے ہیں اور اشتعال دلاتے ہیں ۔اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو سمجھے اور جلسے جلوس اور مظاہروں سے احتراز کریں اور شر پسندوں اور اسلام  دشمن طاقتوں کی سازش کا شکار نہ ہو۔اور سمجھداری سے کام لیں۔

بد عنوان لیڈروں کو حکومت سے بے دخل کئے بنا آزادی کا تصور ممکن نہیں


 بد عنوان لیڈروں کو حکومت سے بے دخل کئے بنا آزادی کا تصور ممکن نہیں
          عوامی وکاس پارٹی کے دفتر میں مہاتما گاندھی کے خدمات اور جدو جہد کو یاد کیا گیا
         
          ۲، اکتوبر ، ممبئی عوامی وکاس پارٹی کے دفتر سے منسلک منی ہال میں مہاتما گاندھی کی یومِ پیدائش کے موقع پر ہوئی تقریب میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری سلیم الوارے نے مہاتما گاندھی کی ابتدائی تعلیم، ان کے لندن اور سائوتھ افریقہ کے سفر کی تفصیلات حاضرین کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح انہیں مئی 1893 میں ناتال ریلوے اسٹیشن پر فرسٹ کلاس میں سفر کرنے پر ذلیل کیا گیا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب گاندھی جی کو نسلی امتیاز کا کڑوا تجربہ ہوااور اسی سے دکھی ہو کرانہوں نے سائوتھ افریقہ میں مقیم ہندستانیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد شروع کی ۔ سلیم الوارے نے مزید بتایا کہ گاندھی جی نے ہندستان واپسی پرملک کی آزادی کے لئے دیگر لیڈران کے ساتھ عدم تشدد پر مبنی تحریک کی بنیاد ڈالی جو آزادی کا سبب بنی۔اس تقریب میں خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے لنترانی کی منور سلطانہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے حاضرین سے دو چبھتے ہوئے سوالات کئے ، کیا خواتین و حضرات کے لئے آزادی کے دو معنی ہیں اور کیا غریب اور امیر کے لئے آزادی کے دو الگ معنی ہیںاور کیا صحیح معنوں میں ہمیں آزادی حاصل ہے ۔ منور سلطانہ نے اس ملک کے غریبوں خصوصاً اقلیتوں کو صلاح دی کہ وہ اپنے جائز حقوق منوانے کے لئے اہنسا کا سہارا لیں ، گاندھی وادی بنیں اور سیاسی طاقتوں کا آلئہ کار نہ بنیں۔
          عوامی وکاس پارٹی کے قومی صدر شمشیر پٹھان نے کہا کہ ایک پر ایک ہو رہے گھوٹالے ہماری معاشیت کو برباد کر رہے ہیںاور ان گھپلوں میں وہ سیاست داں ملوث ہیں جو ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں،ایسے بدعنوان لیڈروں کو حکومت سے بے دخل کئے بنا حقیقی آزادی کا تصور ممکن نہیں ۔شمشیر پٹھان نے مزید کہا کہ اس ملک میں امیر ، امیر سے امیر ترین اور غریب بیچارے غریب ترین ہوتے جا رہا ہی، جس ملک کے لاکھوں بچے دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوں وہ ملک آزادی کے نغمے کس طرح گا سکتا ہی۔اس ملک میں ایک مخصوص طبقے کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں کو جیلوں میں ٹھونسا بھی جا رہا ہی۔ اس وقت اس ملک کو ایک نہیں ہزاروں گاندھی کی ضرورت ہے جو دو قوموں  کے درمیان بڑھتی نفرتوں کو ختم کرنے کے لئے آگے آئیں، اور امن کے گیت گائیں جائیں۔ اس تقریب میں کشن جگمل سنگھ، گنپتی سوامی اناُ، کشور گپتا، اعجاز مقادم  و دیگر پارٹی کارکنان نے حصہ لیا۔ اس تقریب میں موجود تمام مہمان و میزبان خواتین و حضرات گاندھی ٹوپی پہنے ہوے تھی۔ قومی ترانہ کے ساتھ اس تقریب کا اختتام ہوا

  © Lantrani by nEo2012

Back to TOP